لاہوری لاہور سے نکل سکتا ہے

 لاہوری لاہور سے نکل سکتا ہے

مگر لاہور لاہوری سے نہی نکل سکتا
اک جہاں گھوم لیا ہفت رنگ قومیں دیکھ چھوڑیں مگر نا اس شہرء بے مثال سا شہر ملا نا اس کے باسیوں سا کوئی فرد ملا
شہر اور مکینوں کے دل و در ہر اک کے لئے کھلے بلا تفریق قومیت اور لسانی امتیاز اس شہر نے ہر اک کو اپنائیت ہی دی
یہ اس شہر لاہور کی بات ہو رہی جو ہزار سال سے آباد ہے گزشتہ چند دہائیوں سے وجود میں انے والے شہر ء لاہور کے خدو خال قدیمی لایور سے یکسر مختلف ہیں



❤
لاہور کی تاریخ و تمدن جاننا ہو تو رخ اندرون فصیل شہر کا کرنا پڑتا ہے
اس بارہ دروازون میں قید شہر میں اک مختلف جہان آباد ہے
وقت نے اس کی ہیئت کسی حد تک تو تبدیل کی مگر آج بھی آپ کو نئی بنی عمارتوں کے درمیان صدیوں پرانے چھجے والی حویلیاں دکھ جائیں گی ، برگر کی دوکانیں ہر چند وہاں بھی جا پہنچی مگر اس کے بغل میں مٹی کے تندور میں لگی باقر خانی کی خوشبو بھی آپ کو مسحور کرے گی
پورے شہر میں ہسپتالوں کی بھرمار دیکھ کر آپ تنگ ہوں اگر تو اندرون میں اج بھی اپ کو ہر گلی میں اک ھکیم صاحب نظر آ جائیں گے جراح لوگوں کی ٹوٹی ہڈیوں کا علاج آج بھی تھڑے پر بنے اپنے کلینک میں کرتے پائیں جائیں گے
لوگ رستہ پوچھنے پر آپ کو سٹریت نمبر روڈ یا بلاک کی بجائے افراد کا حوالہ دیتے ملیں گے
گلیاں بلاشبہ تنگ مگر مکینوں کے دل کھلے
گھر اتنے پاس پاس کے اپنے خاندان اور ہمسائیہ میں فرق کرنا مشکل
کھلے علاقوں میں دو گھروں کے درمیان گزوں میں فاصلہ کم اور دلوں میں فاصلہ میلوں کا ہے
اندرون ء شہر کی اگر آپ تاریخ سے بھی آگاہ ہوں تو ہر گلی کوچہ کسی نا کسی کہانی یا کسی بڑی شخصیت سے منسوب ملے گا
اس کلچر ان لوگوں سے اگر جدائی طول پکڑ جائے تو دل اداس سا رہتا ہے
سو سال میں اک مرتبہ اندرون شہر کے دیدار کو جانا پرانی ریت ہے بندے کی عہدء وفا نبھا آتے ہیں اس طور
اور خاص کر اگر صحبت یاراں میسر ہو تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے
اتفاقا" Muhammad Asif بغیر کسی اطلاع کے لاہور وارد ہو چکے تھے تو اس بار تمام احباب کے ہمراہ ان کو بھی







زھمت دی زھمت بس اتنی کہ کوئی دس کلومیٹر پیدل چلنا پڑا 😉😘
مگر کیا کیجئے جناب اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
سرد صبح میں دہلی دروازہ سے سفر کا آغاز چائے کڑک اور پھر مختلف سوغاتیں چھکھتے جن میں مہر بشیر کا پوری حلوہ ہی سر فہرست اور اختتام سلیم بٹ کے مٹن چنے اور اک سلام اپنے آبائی محلہ پرانی انار کلی 😥
سارا بچپن جن گلیوں میں گزرا آج وہاں سب اجنبی دکھے کوئی ایسا نہی ملا جس سے شناسائی ہو





انہئ پیروں واپس براستہ انارکلی لاہوری دروازہ اور دہلی
دروازہ
مروت میں چل تو لئے آصف صاحب مگر ناجانے کتنے اچھے الفاظ میں بندے کو یاد کرتے ہوں گے😊
مگر آصف بھائی تھکن مٹ جاتی ہے
یادیں باقی رہ جاتی ہیں ❤❤❤

Post a Comment

0 Comments