. . . . . . ایکسٹرا سروسز . . . . .

 . . . . . . ایکسٹرا سروسز . . . . .

اگر گھر میں غربت نے ڈیرہ ڈالا ہو تو, بچی پیدا ہوتے ہی بیٹی کی شادی کی فکر لگ جاتی ہے الینا کے اماں اور ابی نیپالی تھے اور کراجی میں صدر کے علاقے میں جہاں اور نیپالی خاندان رہتے تھے کرائے کے ایک کمرہ کے اپارٹمنٹ میں رہنے کا فیصلہ کیا، وہاں رہنے کی وجہ ان کی بیٹی تھی تاکہ اس کو نیپال کی رنگین ثقافت، طور طریقے،مختلف کھانوں سے واقفیت اور رہن سہن کا ڈھنگ آجائے۔
کسی سستے ٹورزم پیکچ کے ساتھ ایک ہفتے کی واپسی پر الینا کے والرین نیپال چلے گئے۔ انھوں نے سوچا تھا کہ بیٹی کی شادی کیلئے کچھ سامان لے لیں گے لیکن افسوس ان کی بس گہری نہر میں جا گری یہ خبر پہاڑ بن کے ٹوٹی اور چھوٹی سی نیپالین کمیونٹی میں کہرام مچ گیا۔الینا کے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔الینا نے اپنی منہ بولتی خالہ نیلم کو فون کیاجنھںوں نے اس کو دلاسہ دیا۔ الینا بہت سارے اجنبی چہرے بھی دیکھے اور کچھ جانے پہچانے بھی ۔لیکن اس میں ٹیلیفون کرنے کے باوجود بھی خالہ نیلم شامل نہیں تھیں۔ نیلم کراچی کے پوش علاقے میں مساج سیلون میں کام کرتی تھی، ایک دن اس کے گاہک چھ گنا رقم دینی کی شرط رکھی اگر وہ اس کے ساتھ ہمبستری کرے دو دن بعد کسی گاہک نے نیلم کی شکایت کردی۔ گاہک کے کہنے پر نیلم کو فارغ اور بلیک لسٹ کر دیا گیا۔ اب نیلم کو کسی بھی مساج سیلون میں نوکری نہیں ملنی۔ لیکن نیلم بھی ہوشیار تھی، اس کے پاس اپنے سب گاہک کے ٹیلیفون نمبر تھے۔ سو اس نے اپنے سب گاہک کو گھر کا پتا سمجھایا اور ایکسڑا سروسز دینے کی نوید سنائی۔مزھب اور معشرے کہ لحاظ سے ایکسٹرا سروسز کہیں سے قابل قبول نا ہوں لیکن ، لوگ یہاں سے خوش ہو کے جاتے ہیں جو مجھے اچھا لگتا ہے اور پھر میرے کو بل بھی ادا کرنے ہیں اور۔۔۔ اور۔ او راشن کے پیسے بھی دینے ہیں رب بھلا کرے اس چانڈیو کا جس نے محبت میں آکر مجھے یہ اپاڑمنٹ گفٹ کر دیا تھا۔ بہت دیر تک

نیلم اپنے اپ کو سمجھاتی رہی۔۔۔۔
اسی شام ایک گاہک نے رات کو اس کے پاس آنے کا عندیہ دیا۔ لیکن اس کے کچھ دیر بعد ہی الینا کے ماں باپ کے انتقال کی خبر سنی، افسوس تو ہوا لیکن سوچا چلو کوئی بات نہیں لوگ تو جاتے رہتے ہیں ۔کل چلی جائوں گی ملنے اور تعزیت کرنے، آج تھوڑے سے پیسے اور کمالوں۔
اگلی صبح ناشتے کے بعد گاڑی منگوائ اور صدر پھنچ گئی، بلڈنگ پہنچ کر سیٹرھیوں کے ذریعے فلیٹ کے سامنے پہنچی تو قبرستان کی سی خاموشی اور اندھیرا چھایا ہوا تھا وہاں، دستک دی تو کچھ دیر بعد آلینا نے دروازہ کھولا جس کی آنکھیں رو رو کر سوج گئی تھیں، لیکن خالہ کو دیکھ کر یکدم چمک اٹھیں۔ وہ زور سے خالہ کے گلے لگی اور زاروقطار روتی رہی، جیسے پچھلے دن سے آنسو بہنے سے روکے ہوں۔خالہ نے ناشتے کا پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا، نیلم فلیٹ کی بالکونی سے انڈے ،پراٹھے اور جائے کا آرڈر دیا اور فلیٹ 20-C میں لانے کا بولا۔ 19-C پر وہ خود رہا کرتی تھی۔ چونکہ وہ خود نیپالی تھی،اسلئے اچھے مراسم بن گئے اور وہ الینا کی منہ بولی خالہ بن گئی۔نیلم نے مساج میں نیپال سے کورس کیا تھا اور قسمت اس پر مہربان ہوگئی۔ جاب انٹرویو لینے والے جناب چانڈیو صاحب اس پر فدا ہوگئے اور اپنا ایک اپاڑٹمنٹ اس کو گفٹ کر دیا۔ چائے پیتے خالہ الینا کو دیکھتی رہی اور سوچتی رہی کہ جب بھی وہ کہیں جاتی تھی تو آشی بچپن میں اس کی ٹانگوں سے لپیٹ جایا کرتی تھی اور کہیں جانے نا دیتی، یہ سوچ کر وہ مسکرا دی۔ناشتے کے بعد نیلم نے الینا سے بولا؛"چلو میرے گھر چلیں،اپنا سامان لے لو،یہاں رہنے کا فائدہ نہیں اور تم یہاں کا کرایہ بھی کیسے دو گی۔ ۔؟

Post a Comment

0 Comments