لاکڈاؤن کے بعد سے گھر کے حالات اور خراب ہو گۓ! مہاماری کی وجہ سے بڑی مشکلوں سے کوئ کام پر رکھتا تھا۔ رمیش پچھلے 3/4 دنوں سے کام نا ملنے کی وجہ سے بہت دکھی تھا ! گھر کا راشن بھی ختم ہونے والا تھا۔ اور پتنیگیتا بھی کئ دنوں سے بیمار تھی! نا تو علاج اور نا ہی کھانے کا انتظام، اگر آج بھی کام نا ملا تو بچہ بھوک کیسے سہ پائینگے، یہی سوچ۔سوچ کر رمیش کا دماغ پھٹا جا رہا تھا!
صبح کا وقت تھا، کسی اور مزدور کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ اپنے معمولی سے اوزار لیکر کام کی تلاش میں نکل پڑا! تبھی چوراہے کے پاس ایک لمبی گاڑی روکی! گاڑی کا شیشہ کھُلا، اور ایک روبدار سیٹھ نے پوچھا، پوتائکا کام جانتے ہو؟
جی،جی ہاں، بہت اچھے سے! رمیش یکا یک بولا!
کنیا کالج کے سامنے جو بنگلہ ہے، وہاں پہنچ جاؤ، کام مل جائیگا، یہ کہکر گاڑی والا سیٹھ آگے چلا گیا!
رمیش کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا، کالج دور تھا اور کسی رکشہ یا سواری کے پیسے بھی نہیں تھے، اس لئے وہ پیدل ہی چل پڑا!
کہاں رہ گۓ تھے؟کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں! رمیش کے پہنچتے ہی سیٹھ اس پر برس پڑا! تم لوگ ہوتے ہی کام چور ہو، جاؤ باہر باغیچے کی دیواروں کی پوتائ کرو۔ سیٹھ چلایا، شاید اسے یہ معلوم نہیں تھا کی جس لمبی گاڑی سے وہ اپنے گھر 5 سے 10 منٹ میں پہنچ جاتا ہے، وہاں تک پیدل پہنچنے میں 1 گھنٹہ لگتا ہے!
رمیش شرمندہ ہوا اور باغیچے کی طرف بڑھا، میری ہی غلطی ہے تھوڑا اور تیز چلتا تو جلدی پہنچ جاتا۔ اسنے من ہی من سوچا! اسنے سامان اٹھایا بالٹی میں رنگ ملایا، گھولتے ہوے رنگ میں اسے اپنے بچوں کا کھلکھلاتا ہوا چہرا دکھا! آج تو بڑے سیٹھ کے یہاں کام ملا ہے ، روپے بھی اچھا ملےگا، آج کا راشن اور دوا تو آرام سے آ جائیگی! ساتھ ہی بچوں کے لئے برف کی اسکی بھی لیتا چلونگا! رمیش خد سے ہی باتیں کۓ جا رہا تھا!
0 Comments
if you have doubt please let me know