خدارا مُلکی سرمایہ کار کو جینے دو، اُسے کام کرنے

 خدارا مُلکی سرمایہ کار کو جینے دو، اُسے کام کرنے دو

پوری دُنیا میں بہت کم لوگ ایسے موجود ہیں جو اپنے ملک کی باگ دور اگر اپنے سرمایہ سے چلانا چاہیں تو چلا







سکتے ہیں کیونکہ رزق کی فروانی اُنہی لوگ کو میسر آتی ہے جو سرمایہ کاری میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ محنت مزدوری سے انسان کے گھر کا صرف چولہا چل سکتا ہے لیکن اگر یہی محنت کش اپنی تھوڑی تھوڑی محنت کو اکٹھا کر کے سرمایہ کاری کرئے تو ایک دن بِل گیٹس اور جیک ما کی طرح ملک چلا سکتا ہے۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی جب تک اسکی معیشت مضبوط نہ ہو کیونکہ معیشت کی مضبوطی کی بنیاد پر ہی آپ ہر ایک جنگ جیت سکتے ہیں چاہے وہ جنگ معاشی ہو یا روایتی۔ کسی معیشت کو چلانے کے لئے سب سے اہم چیز ہے سرمایہ اور سرمایہ کار جو کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حثییت رکھتے ہیں انکے بغیر ملکی ترقی کی بات بے سود ہے دُنیا کے ہر کونے میں انکی قدر کی جاتی انہیں چوھودویں کے چاند کی مانند سمجھا جاتا ہے کیونکہ انہیں کی بدولت ملک کے معاملات چل رہے ہوتے ہیں۔
اگر بات کی جائے پاکستانی معیشت کی تو اسکے کے احوال سے معاشی حلقے تو دور معمولی فہم و فراست رکھنے والے احباب بھی بخوبی واقف ہیں۔ ملکی معیشت کا پہیہ عرصہ دراز سے ایسے دائرے میں پھنسا ہوا ہے کہ بظاہر چلتا دِکھائ دینے کے باوجود اس میں پیش رفت نہیں ہو رہی۔ حکومتیں سیاسی ہوں یا غیر سیاسی معیشت کی بحالی کے لئے چوڑے دعوے ضرور کرتی ہیں۔ ماضی کی حکومت کو اقتصادی بحران کا ذمہ دار قرار دے کر معاشی جہاز کو ٹیک آف کرنے بلکہ تیز رفتاری سے ترقی کی جانب بڑھانے کا عزم بھی ظاہر کرتی ہے لیکن جب بھی کوئی حکومت رُخصت ہوتی ہے تو معاشی صورتحال اس طرح کی ہوتی ہے کہ متعین مقام سے زرا بھی آگے بڑھتی دِکھائ نہیں دے رہی ہوتی وہ اس لئے کیونکہ ہر حکومت نے اپنے سرمایہ کار کو بوجھ سمجھا اور ان پر وقتاٙٙ فوقتاٙٙ ریلیف دینے کی بجائے ٹیکسز کا بوجھ بڑھایا جس سے سرمایہ کار نے تنگ آ کر اپنا سرمایہ اُٹھایا اور باہر کی دُنیا میں لگانا شروع کر دیا۔
آج بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے ہر سرمایہ کار کو سینکڑوں مسائل درپیش ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان کی حکومت اور معاشی امور سے وابستہ ادارے جب تک سرمایہ کاری کے شعبے میں حقیقت پسندانہ اور حوصلہ افزاء حکمتِ عملی اختیار نہیں کریں گے ملکی معیشت ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کے چکر سے آزاد نہیں ہو سکے گی۔ پاکستان کی حکومتیں جب تک ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گی معیشت کا پہیّہ دائرے کے گرداب سے نہیں نکل پائے گا۔
کیسی عجیب بات ہے کہ پاکستان کی ہر حکومت سرمایہ کاری کے حصول پر خاص توجہ دیتی ہے۔ وزارتِ کامرس دُنیا بھر سے سرمایہ کاری لانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف رہتی ہے۔ وزارتِ خارجہ سفارتی حلقے اور حتیٰ کہ عسکری قیادت تک پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے جدو جہد کرتی دِکھائ دیتی ہے۔ حال ہی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لئے روشن ڈیجیٹل اکاوّنٹ کے نام سے اسکیم شروع کی ہے جس کے تحت سمندر پار پاکستانیوں کو ترسیلاتِ زر کے قانونی طریقے کی ترغیب دی گئی۔ وزارتِ خزانہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی طرف سے ماہانہ 2 ارب ڈالرز سے زیادہ بھجوانے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی۔ دوسری طرف جب یہی پاکستانی اپنے ملک اور قوم کی محبت میں عمر بھر کی جمع پونجی لیکر پاکستان آتے ہیں تو انہیں واپس بھگانے والی حرکات شروع کر دی جاتی ہیں۔
عجب تضاد ہے کہ سرمایہ کاری کے حصول میں انتھک جدوجہد کرنے والے ملک میں آئے پاکستانی سرمایہ کاروں کو اطمینان سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ ان حالات کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف بیرونِ ملک سے آئے پاکستانی بلکہ دوسرے ممالک کے سرمایہ کار بھی راہِ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔ ہمارے معاشی پالیسی سازوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب اپنے ملک کے لوگ ہماری تکلیف دہ پالیسیوں سے پریشان ہوکر بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، ملائیشیا، سنگاپور جا کر سرمایہ کاری کر لیں گے تو جاپان، جرمنی، امریکہ اور سعودی عرب یا کسی بھی دوسرے ملک کے سرمایہ کار ہمارے یہاں کیوں آئیں گے۔ کیا ہمارے معاشی ماہرین اور حکومتی ذمہ داران کو معلوم نہیں ہے کہ ہر ملک کا سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کی پیشکش پر سب سے پہلا سوال یہی کرتا ہے کہ آپ کے اپنے سرمایہ کار دوسرے ممالک میں کیوں جا رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ جو ملک اپنے سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری دوست ماحول فراہم نہیں کرسکتا اور جس کے اپنے سرمایہ کار اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے بعد بھی بلیک میلنگ کی گھناوّنی وارداتوں اور سرکاری محکموں کی بے بنیاد تحقیقات کے ہاتھوں زچ ہو رہے ہوں وہاں کسی دوسرے ملک سے سرمایہ کاری کیسے آ سکتی ہے۔
یاد رکھیں سرمایہ کار درخت پر بیٹھے پرندوں کی طرح ہوتے ہیں جو ایک آہٹ پر درخت چھوڑ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں صورتِ حال یہ ہے کہ آہٹ تو دور کی بات ہے، تحقیقات اور چند سکّوں کی لالچ میں سرمایہ کاری کے انمول پرندوں کے پیچھے ڈھول تک بجانے سے گریز نہیں کرتے۔ ریاست کے ذمہ دار ہی جب ریاست کے دیدہ وروں کو بھگانے کی کوشش میں ہوں گے تو ملک ترقی خاک کرئے گا۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومتی نمائندوں کا وفد ملک کے چیمبر آف کامرس کے صدور سے ہر لمحہ رابطے میں رہیں، انکے ساتھ ملکر مختلف پراجیکٹس ڈایزائن کریں جس میں سرمایہ کاروں کو خصوصی نمائندگی دی جائے اُن کو زیادہ سے زیادہ سیلز ٹیکس دینے کی طرف مائل کیا جائے، کیونکہ کوئی بھی سرمایہ کار یہ نہیں چاہے گا کہ اسکی جمع پونجی حکومتی ٹیکسوں کی نظر ہو جائے اسی وجہ سے لوگ ویلتھ ٹیکس جمع کروانے سے کتراتے ہیں۔ جب اس طرح کی سہولیات حکومت سرمایہ کار کو دے گی تو سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرئے گا جس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے۔ اس سے نہ صرف لوگوں کو روز گار ملے گا بلکہ سرمایہ کار کو منافع ہو گا اور ہر سرمایہ کار ہمیشہ سرمایہ کاری منافع کے لئے کرتا ہے۔ حکومت سرمایہ کار کو اس طرف راغب کرئے کہ ان ٹیکسز کی چھوٹ کی مٙد میں جو منافع وہ حاصل کرئے اس سے نیا کارخانہ یا فیکٹر ی لگائے تا کہ ملک دن دُگنی رات چوگنی ترقی کر سکے۔
وزیرِ اعظم عمران خان، قومی معیشت کے پالیسی سازوں اور سرمایہ کاری کے لئے ذمہ دار اداروں سے گذارش ہے کہ اپنے ملک کے سرمایہ کاروں کی قدر کریں انہیں سرکاری اداروں میں ذلیل و خوار کرنے کی بجائےٹیکس چھوٹ دیں تاکہ ملکی ترقی اور عوامی بہبود کے لئے وہ کام کر سکیں اور قومی معیشت کی بحالی کے لئے راہ ہموار ہو سکے۔
بقلم:کاشف شہزاد

Post a Comment

0 Comments