ڈاکٹر عبدالسلام کا تو نام ہی ٹھیک نہیں ہے

 

ڈاکٹر عبدالسلام کا تو نام ہی ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے آباء واجداد بھی جھنگ جیسی پسماندہ جگہ کے تھے۔ خراسان، بغداد اور خوارزم سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ پھر کیا بھی تو کیا کیا۔ تیرہ سال کی عمر تک ایک مقالہ نہیں لکھ پائے پھر چودہ سال کی عمر میں جا کر کہیں پہلا مقالہ تحریر کیا۔ کسی طرح کھینچ تان کر کیمرج نامی کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کر لی۔ لے دے کر اٹلی میں ایک مرکز برائے نظری طبعیات بنایا۔ سرکاری ملازمت کی بھی، تو نہ خزانہ کی وزارت میں نہ صنعت میں۔ ایٹمی توانائی کمیشن نامی ایک فضول سے ادارے سے وابستہ رہے۔ پانسو وظائف بھی نوجوان سائنسدانوں پر ضائع







کیے جس سے دو تین اچھی بھلی سڑکیں بن سکتی تھیں۔
لاہور میں پی اے ای سی اور قائداعظم یونیورسٹی میں مرکز برائے نظری طبعیات پر قوم کا خزانہ لٹاتے رہے۔ اپنے ساتھ ساتھ انہوں نے ڈاکٹر اشفاق احمد، رضی الدین اور عشرت عثمانی جیسے لوگوں کو بھی خراب کیا۔ یہ حضرات ڈاکٹر عبدالسلام کے بہکاوے میں آ کر سرن جیسی جگہوں کو چھوڑ کر واپس آئے اور قومی خزانہ اور وقت ضائع کر کے ایک جوہری توانائی کمیشن کو رگیدتے رہے، ایک پی اے ای سی کے عمارتیں بڑھاتے رہے اور ملک میں پلوٹونیم اور یورینیم کی کھوج کے لیے کمیٹیاں تشکیل دیتے رہے۔ ان فضول کاموں پر مغرب نے انہیں بڑھاوا دینے کے لیے بلا وجہ ان کی واہ واہ شروع کر دی۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب درپردہ انہی کے ایجنٹ تھے اس لیے ان کو اہم بنانے کی سازش کے تحت پاک امریکی خلائی تعاون کا معاہدہ بھی ان کے ذریعے ہوا اور 1961 میں ناسا نے بلوچستان میں خلائی تحقیقاتی مرکز بھی قائم کر دیا۔
اب کوئی پوچھے اگر وہ واقعی سنجیدہ ہوتے تو کیا آج اتنے سال بعد بھی بلوچستان سے کوئی راکٹ خلا میں کیوں نہیں گیا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کو کام نہیں کرنے دیا۔ ناسا بگتی یا مری قبائل کے ساتھ ہی کام کر سکتا تھا۔ نیت صاف ہونی چاہیے۔
1965 میں ڈاکٹر عبدالسلام کی کوششوں سے ہونے والا پاک کینیڈا جوہری توانائی معاہدہ بھی انہی مغربی سازشوں کا تسلسل تھا۔ دنیا کی آنکھوں میں مکمل دھول جھونکنے کی خاطر اسی سال ڈاکٹر عبدالسلام کو بیچ میں رکھ کر امریکہ نے ہمیں ایک ری ایکٹر بھی دے ڈالا اور نیلور کے مقام پر ایڈورڈ سٹون کے ساتھ پاکستان انسٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے قیام کا معاہدہ بھی کروا دیا۔
اس کے علاؤہ ڈاکٹر عبدالسلام نے سپارکو نامی ایک سفید ہاتھی بھی قوم پر مسلط کیا جو سیارے چھوڑنے کے علاؤہ کچھ نہیں کرتا۔ کوئی پوچھے پہلے ہی خلا میں اتنے بیکار سیارے گھوم رہے ہیں۔ مزید سیارے چھوڑ کر کیا فایدہ ہو گا۔ یہی پیسہ اگر صحیح طرح صرف ہوتا تو آج ملک میں جامعہ حفصہ اور جامعہ حقانیہ کی کئی شاخیں قائم ہو سکتی تھیں۔ صرف ادارہ ہی نہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے زر مبادلہ پر کاری ضرب لگاتے ہوئے ہمارے خلائی سائنسدانوں کی تربیت کا ناسا سے معاہدہ بھی کروا ڈالا۔ تربیت بے شک مفت تھی پر کھانے پینے سفر اور رہائش کے ضمن میں ہمارے خزانے کو بے پناہ نقصان ہوا۔
بھٹو صاحب کے ایٹم بم والے خواب کی باگ ڈور بھی ڈاکٹر عبدالسلام کو سونپی گئی تھی پر بھٹو کو جیسے احمدیوں کے حوالے سے عقل آئی ویسے یہ لگام بھی ایک مومن ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو تھما دی گئی۔ کچھ حاسدین کا خیال ہے کہ عبدالقدیر صاحب کو ایٹمی توانائی کا کچھ پتہ نہیں تھا اور پروگرام کی بنیاد ان دستاویزات پر تھی جو ڈاکٹر عبدالسلام نے امریکہ کے مین ہٹن پروگرام کے حوالے سے مرتب کی تھیں۔ پر حاسدین ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا یقین اس وقت آیا جب ڈاکٹر صاحب نے ببانگ دہل آغا وقار کی پانی والی کار کو سائنسی اعتبار سے درست قرار دیا۔ تندی باد مخالف میں ڈاکٹر عبدالقدیر جیسا شاہین ہی پرواز کر سکتا ہے۔
جہاں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو مغرب نے اپنے بغض میں کبھی کوئی اعزاز نہیں دیا وہیں انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کو ایک گہری اور سوچی سمجھی سازش کے تحت عالمی قامت کا سائنسدان بنا ڈالا۔ 1950 کا سمتھ پرائز، 1958 کا ایڈم پرائز، 1964 کا ہیو تمغہ، 1968 کا جوہری امن انعام، 1978 کا شاہی تمغہ، 1979 کا نوبیل انعام، 1980 کا جوزف اسٹیفان تمغہ، 1981 کا لومنسوو سونے کا تمغہ اور 1999 کا کوپلے میڈل۔
ٹھیک ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی کم ازکم ایک درجن نظری طبعیات کے مقالے ایسے ہیں جن سے طبعیات کی ایک نئی جہت کا تعین ہوا ۔ گرینڈ یونیفائیڈ تھیوری، الیکٹروویک تھیوری، گولڈسٹون بوسن اور ہگز میکینکس بھی ان کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ خدائی ذرہ کہلوانے والا ہگز بوسن بھی ان کی تحقیق کا تسلسل ہے لیکن اس سب سے امت مسلمہ کو بھلا کیا فائدہ پہنچا۔ الباکستان کی نظریاتی اساس کا اس سے کیا لینا دینا
حاشر ابن ارشاد

Post a Comment

0 Comments