یہ شہر سکردو ہے

 یہ شہر سکردو ہے




تحریر ۔ احسان علی دانش
سکردو ایرپورٹ سے باہر نکلتے ہی زیر زمین ٹیوب میں سوار ہو جائیں اور چالیس کلو میٹر طویل شہر کے دوسرے کنارے تھورگو تک سفر کے مزے لیں، درمیاں میں بے شک گمبہ، رگیایول ، استانہ ، کشمرہ، شق تھنگ، حسن کالونی، ڈیوژن، الدینگ اور حسین آباد کے سٹیشنوں میں اتر بھی سکتے ہیں۔ تھورگو سے واپسی میں دریا پار مشہور زمانہ سرفہ رنگا میدان جہاں اب بلند و بالا پلازے بنے ہیں وہاں سے کھرپوچو پہاڑی کے سامنے سے سندوس اور وہاں سے کتپانا اور واپس ایرپورٹ تک۔ جبکہ جو لوگ ٹیوب میں سوار ہونا نہ چاہیں تو فضا میں بلند میٹرو بسیں جو ہر پانچ منٹ بعد آتی جاتی ہیں اس سفر کا لطف اٹھائے ۔ میٹرو بسوں کا ٹریک مین ایکسپریس ہائی وے کے ساتھ ساتھ ہے جو ایرپورٹ سے شہر کو نکلتا ہے اور چھ رویہ ہے ۔شہر بھر کی سیاحت کے لئے اس سفر میں بھی اتنا وقت لگتا ہے جتنا ٹیوب میں لگتا ہے بس آپ کی مرضی ہے آپ جیسی سواری استعمال کرنا چاہیں کر سکتے ہیں ۔ جو سیاح آتے ہی کھرپوچو قلعے کا نظارہ کرنا چاہیں وہ شاہی پولو گراونڈ کے نزدیک عبولی ٹوق سے




برقی لفٹ میں سوار ہو سکتے ہیں اور پلک جھپکنے میں کھرپوچو پہاڑی پر، جہاں سے چاروں طرف کا نظارہ کرنے کے بعد چاہئے خوبصورت ٹریک سے اتر بھی سکتے ہیں چاہے دوسری لفٹ کے زریعے چھومک کے سامنے دریائے سندھ کے اس پار بلتستان یونیورسٹی کی پر شکوہ عمارت کا فضائی نظارہ کرتے ہوئے مہ گنگ گنگ پہاڑی کی چوٹی پر، جہاں سے ایک طرف سکردو دوسری طرف شگر اور کواررو کا بھی ایک ساتھ نظارہ کیا جا سکتا کے جبکہ کشتی کے شوقین کے لئے دریائے سندھ کے کنارے مختلف اقسام کی کشتیاں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے کی آنکھ مچولیاں کرتی ہوئی۔ اور بائی روڈ والوں کے لئے دریا پر کھرپوچو قلعے سے تھورگو پڑی تک 10 مضبوط پل طرفین کو باہم ملاتے ہیں ۔دیوسائی کے سیاحوں کے لئے کئی برقی لفٹ منتظر فردا ہیں ۔ شنگریلا سے براہ راست جانے والوں کو وہیں سے ہی لفٹ سسٹم بھی ہے اور ریل بھی چلتی ہے جو براستہ شغرتھنگ دیوسائی جانا ہو یا براہ راست پنڈی نکلنا ہو تو اسی ریل میں ڈھائی گھنٹے میں براستہ مظفر آباد اسلام آباد ۔دیوسائی سے واپسی کے کئی ذریعے ہیں ان میں سے سکردو شہر میں داخل ہونے والا قدیم راستہ برگے نالے سے لفٹ کے علاوہ ریل گاڑی بھی چلتی ہے اور چندا، تنجوس، شگری بالا کے مقامات پر ذک زیک سڑکیں بھی ہیں جہاں سے اترتے ہوئے اپنا لطف اٹھایا جا سکتا ہے ۔دیوسائی میں شتونگ نالے کا پانی بھی سدپارہ نالہ میں ڈال کر ایک طرف سدپارہ ڈیم کا اصل ہدف پورا ہوچکا ہے دوسرا پانی کی بہتات کی وجہ سے پانی کا ایک حصہ چینل کے ذریعے دائیں جانب والی چوٹی سے سکردو شہر کے کشمرہ میں گرایا جارہا ہے اور دنیا کا بلند ترین آبشار وجود میں آیا ہے اور اتنا پانی بائیں جانب والی چوٹی سے حسین آباد کی جانب کہیں گرایا ہے اور اتنا بڑا آبشار ادھر بھی موجود ہے ۔ ان دونوں مقامات پر سال بھر سیاحوں کا رش رہتا ہے۔ کہتے ہیں گزشتہ سال امریکہ اور کینیڈا کے درمیان میگرا فال پر اتنے سیاح نہیں آئے جتنے سکردو کے جڑواں فال پر آئے ۔گنجان شہر کے ڈرینز کا نقشہ یورپ کے ہالینڈ سے منگوایا گیا تھا جس کے تحت نشیب میں کئی جگہوں پر بڑے بڑے پلانٹس لگائے گئے ہیں جہاں کیمیکل کے ذریعے گندگی کو اگلے لمحوں میں یوریا بنایا جاتا ہے اور بلتستان کی زمینوں کو زرخیز بنانے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ کھرمنگ، خپلو اور شگر کے






مسافرین کے لئے ساری وادیوں میں روزانہ دو وقت پر ہائی سپیڈ ریل گاڑیاں چلتی ہیں۔ دنیا کے اکثر شہروں کی طرح اس شہر کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت ندی ہے جسے ہرگیسا نالہ کہتے ہیں۔ یہ ندی سدپارہ ڈیم سے دریائے سندھ تک بہتی ہے جو کم و بیش 15 کلومیٹر لمبی ہے ۔ایک زمانے میں اس میں پانی نہیں ہوتا تھا اب دیوسائی شتونگ نالہ کا رخ مڑنے کے بعد اس نالے میں سال بھر لبالب پانی بہتاہے جو شیشے کی طرح صاف و شفاف چمکدار ہوتا ہے جس کے سبب شہر کی خوبصورتی دو چند ہو جاتی ہے اس پر مستزاد یہ کہ سکردو ڈیولیپمنٹ اتھارٹی نے اس نالے کے دونوں اطراف مضبوط بند باندھے ہیں اور یہ بند کراچی کے لیاری ایکسپریس کی طرح شہریوں کے لئے نہایت مفید ہیں ۔ ان دونوں بند کے اوپر زبردست ٹریک بنائے ہیں جہاں صبح شام ریٹائرڈ قسم کے بزرگ خواتین و حضرات واک کرتے نظر آتے ہیں اور ہر ایک کوس پر سستانے کے لئے چبوترہ سا بھی بنایا گیا ہے جنہیں بارش اور دھوپ سے بچایا گیا ہے، جہاں تھکاوٹ دور کرتے ہوئے یہ لوگ زندگی کے ان ایام کی یاد تازہ کرتے ہیں جن ایام میں ان لوگوں کی پہلی ملاقات ہوئی تھی اور زندگی ایک ساتھ گزارنے کا عہد و پیمان کیا گیا تھا ۔ان چبوتروں کے ساتھ ساتھ چائے اور کولڈ ڈرنگ والے سروس کے لئے تیار ہوتے ہیں ۔دودھ کی طرح شفاف ندی کا پانی ہو اور دو دل والے زندگی کی خوشگوار یادوں میں کھوئے ہوئے زرا دور تک اور دیر تک کنارے سے چلیں تو اندازہ لگا لیجئے اندر کا ماحول کیا ہوتا ہوگا۔ شہر کی سڑکیں جس منصوبے کے تحت بنائی گئی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ شاندار شہر داری نظام کی بدولت سکردو ڈیولیپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کو گزشتہ سال عالمی ایوارڈ سے نوازا ہے ۔ سڑکیں بہت زیادہ کشادہ نہیں تاہم ان پر چلنے والے ٹریفک قانون کے شکنجے ہیں جس کے سبب ٹریفک کی روانی میں کوئی خلل پیدا نہین ہوتا ۔ شہر کے اندر پارکنگ کا مسئلہ قانون کے مطابق حل کردیا گیا جب کہا گیا کہ نئے پلازے بنانے والے اپنی دو منزلیں کار پارکنگ کے لئے مختص کریں ۔ آج ٹریفک کو بے ہنگم ہونے کی ضرورت نہیں ۔







بہت ساری تنگ جگہوں پر یا تو اوور ہیڈ برج بنائے یا انڈر پاس۔ جس کے سبب ٹریفک کے مسئلے حل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شہری خوبصورتی بھی پیدا ہو گئی ہے۔ ایک زمانے میں اتنے بڑے شہر کے لئے سٹی پارک کے نام سے ایک ہی پارک تھا جس کا گیٹ اکثر بن رہتا تھا اور بچوں کے کھیلنے کے لئے میونسپل سٹیڈیم کے نام سے ایک فٹیچر قسم کا گراونڈ تھا اب سکردو ڈیولیپمنٹ اتھارٹی کی محنت سے شہر بھر میں ہر طرح کی زیبائش و آرائش سے آراستہ 10 خوبصورت پارک اور 15 گراونڈ موجود ہیں جہاں کی رونقیں 16 گھنٹے اور سال بھر بحال رہتی ہیں جبکہ شہر کے وسعت اور آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے درجن بھر تھیٹر اور سینما ھال بھی ہاوس فل رہتے ہیں ۔یہ سب کچھ ہونے کے بعد ملک کے نامور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کا کہنا سچ لگتا ہے انہوں نے کھرپوچو پہاڑی سے سکردو کا نظارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا میں دو خوبصورت ترین نظارے ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک نظارہ کھرپوچو قلعے سے سکردو کو دیکھنا ہے اب یہ پہلا نظارہ ہے یا دوسرا یہ تارڑ جانے یا اس کا انگریز دوست جس کے ریفرنس سے انہوں نے اپنی کتاب میں سکردو کے بارے میں یہ کمنٹس دیے ہیں ۔







یہ سب کیسے ہوا ؟ یہ سب ایسے ہوا کہ ایک عرصے سے جتنے سیاستدان میدان عمل میں آگئے وہ سب سیاست کو عبادت سمجھنے والے تھے، وہ اپنے علاقے کے ہمدرد تھے، سب اپنے علاقے کے حقوق کے لئے ایوان میں جنگ کرنے والے تھے، سب ایک دوسرے کا احترام کرنے والے تھے،ایوان میں اجلاس کو جانے سے پہلے سب باہم مل کر جاتے اور اپنے علاقے کے بارے میں ایک مشترکہ لائحہ عمل پیش کرتے اور اپنے موقوف پر ڈٹ جاتے، سب سالانہ بجٹ کے پیسوں کو دیانت داری سے خرچ کرتے، یہ نمائندے اپنے حلقے کے بجٹ کو آپنے رشتہ داروں میں ٹھیکے کے مد میں تقسیم کرنے والے نہیں تھے نہ ہی سرکاری پیسے اپنے رشتہ داروں کی جیپوں میں پہنچانے کے لئے سڑکوں کے بنے بنائے کلورٹس کو اکھاڑ کر از سر نو تعمیر کرانے والے تھے ۔انہوں نے پیسوں کے عوض نوکریاں بھی تقسیم نہیں کیں بلکہ میرٹ کا بھر پور خیال رکھا۔ یہ لوگ خود کرپٹ تھے نہ کسی کرپٹ بیوروکریٹ پر ہاتھ رکھنے والے تھے۔ ۔ ان لوگوں کا ذاتی مفاد سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا بلکہ یہ علاقے کی تعمیر و ترقی کو اپنا فرض جان کر ایوان میں آئے تھے جس کے لئے ایوان میں پہلے دن قرآن کے ساتھ قسم کھا کر حلف بھی اٹھایا ہوا ہے

Post a Comment

0 Comments