پاکستان کو ایسے "سرپھروں" کی اشد ضرورت ہے۔۔۔

کہا جا رہا ہے کہ شوق کی خاطر جان خطرے میں ڈالنا ٹھیک نہیں ۔ کیا مل جانا ہے ؟ ملک و قوم کے مسائل حل ہو جانے ہیں کیا ؟
تو جناب
کے ٹو اور اس جیسی دوسری چوٹیاں جیسے کہ نانگا پربت، براڈ پیک وغیرہ کو سر کرنے کے لیے حکومت پاکستان سے پرمٹ لینا پڑتا ہے جس کی فیس لاکھوں میں ہے۔ یہ فیس فارن ریمیٹنس کی صورت میں اس غریب ملک کے خزانوں میں آتی ہے


آپ کے ملک کے لیے یہ فارن ریمیٹنس آکسیجن کا درجہ رکھتی ہے
اس طرح کے کوہ پیماؤں کے سوشل میڈیا پر ہزاروں لاکھوں فالوورز ہوتے ہیں۔ جب ایسی مہم انڈر پراگریس ہوتی ہیں تو دنیا بھر کے میڈیا میں پاکستان ڈسکس ہوتا ہے۔ دنیا میں ایک مثبت پرسیپشن بنتا ہے۔ کتنے ہی افراد ان سے متاثر ہوکر پاکستان کا رخ کرتے ہیں جس سے سیاحت، نتیجتاً قومی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے
صدپارہ جیسے ہیروز کے اس قدم کی وجہ سے پاکستان کا کتنا مثبت امیج گیا۔ وہ انسان اپنی جان کو داؤ پر لگا کر اس ملک کو کتنا کچھ دے گیا۔ مستقبل میں ان چوٹیوں کو دیکھنے، انھیں سر کرنے کتنے ہی لوگ آیا کریں گے۔ اللّٰہ



صدپارہ صاحب کی حفاظت فرمائے۔ بحیثیت قوم ہم انکے مقروض ہیں
حضرات، اکانومی اب بہت جدید ہوچکی ہے۔ یہ روٹی، کپڑا، مصالحے بیچنے سے بہت آگے نکل چکی ہے
آج کی دنیا میں برانڈ پرسیپشن انتہائی اہم ہے۔ دنیا اپنے ہیروز کو برانڈ کرتی ہے۔ صرف ایک سچن ٹنڈولکر کے کیرئیر نے، بھارت میں کرکٹ کو بدل کر رکھ دیا۔ بھارتیوں میں اعتماد بھر دیا۔ کرکٹ کے دم پر بھارت نے کتنی قومی آمدنی پیدا کی، اسکا حساب کرنا مشکل ہے

کیا کسی بھارتی نے شکایت کی کہ ٹنڈولکر کی سینچریوں کا کیا فائدہ ہوا؟
ٹنڈولکر نے تو اپنی جان داؤ پر نہیں لگائی، صدپارہ صاحب نے لگائی ہے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کس حال میں ہیں۔ ویسی یہ قوم ہیروز پیدا نہیں کررہی۔ سب اپنی لگی بندھی روٹین لائف میں لگے ہوئے ہیں۔ اپنے ہیروز کی قدر کرنا سیکھیں۔
انسانی تجسس کی قدر کیجیے۔ ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کیجیے جہاں انسان کسی مقصد یا بناء کسی ظاہری مقصد کے اپنے کسی تجسس کو کھوجے۔ اسکے پیچھے اپنا وقت انویسٹ کرے۔ رائٹ برادران نے اپنے اڑنے کے خواب اور تجسس اور کے ہاتھوں پہلا جہاز بنایا اور اپنے اسی passion کو پورا کرنے کی کوشش میں مارے گئے۔

پاکستان کو ایسے "سرپھروں" کی اشد ضرورت ہے۔۔۔ 






Post a Comment

0 Comments